انسانی ذہانت کیا ہے اور ذہانت کی اقسام

انسانی ذہانت کیا ہے اور ذہانت کی اقسام
انسانی ذہانت کیا ہے اور ذہانت کی اقسام
جب انسان مختلف لوگوں کو دیکھتا اور اُن سے ملتا ہے تو اس سے اس کی قوتِ مشاہدہ بڑھتی ہے اور یوں اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب آدمی زمانہ طالب علمی سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور چند سال گزار تا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ کتاب کا علم تو بڑا محدود ہے۔ اس سے نمبر تو اچھے آ جاتے ہیں، لیکن زندگی کے مسائل و معاملات میں اس کا عمل دخل زیادہ نہیں ہے۔ زندگی گزارنے کیلئے کلاس روم کی مشقیں اور لیب کے تجربات سے کہیں زیادہ اہم حقیقی زندگی کے تجربات ہیں۔

علم مختلف ذرائع سے آ تا ہے۔ تجربہ ہوتا ہے، تجربے سے رائے بنتی ہے اور وہ رائے غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی۔ ایک علم آدمی کے اپنے مشاہدے سے آتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک آدمی لمبے عرصے تک لوگوں کو پڑھاتا ہے تو وہ لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اسے پتا چلتا ہے کہ کس طرح کے لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور کس طرح کے ناکام ہوتے ہیں۔ یہ تمام علوم زندگی گزارنے میں معاون ہو تے ہیں۔ علم بڑھتا ہے تو انسانی ذہانت بھی بڑھتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہم بچے کے اسکول میں داخلے سے لے کر مرتے دَم تک  ذہانت بڑھانے کے طریقے جاننے اور انھیں اختیار کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

انسانی ذہانت ایک پیچیدہ موضوع
ایک زمانہ تھا کہ ماہرین صرف دو قسم کی ذہنی کیفیت کی بات کرتے تھے: ذہین اور غبی۔ لیکن، سائنسی تحقیقات اور انسانی علوم نے آج یہ بات آشکار کی ہے کہ انسانی ذہانت کا موضوع اتنا سادہ نہیں جتنا کہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
انیس سو تیراسی میں دنیا میں انسانی ذہانت کے حوالے سے ایک نئی تھیوری آئی جسے ’’ملٹی پل انٹیلی جنس‘‘ (Multiple intelligence) کا نام دیا گیا۔ یہ تھیوری ہاورڈ گاڑدنر نے پیش کی جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انسان میں آٹھ طرح کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔



٭ الفاظ کی ذہانت
٭ اعداد کی ذہانت
٭ خاکوں کی ذہانت
٭ جسمانی حرکات کی ذہانت
٭ موسیقی کی ذہانت
٭ لوگوں سے میل جول کی ذہانت
٭ اپنے آپ کو سمجھنے کی ذہانت
٭ فطرت کی ذہانت

انھوں نے پاگل بچوں پر بھی تحقیق کی اور بتایا کہ دنیا اگرچہ انھیں پاگل کہتی ہے، لیکن ان میں کئی طرح کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک پاگل شخص ہے مگر وہ گانا بہت اچھا گا لیتا ہے۔ یہ ذہانت کی ایک قسم ہے جس میں وہ اپنی آواز کے پیچ و خم کو بہت اچھے طریقے سے تبدیل کرلیتا ہے۔

اس تھیوری سے پہلے ایک ہی تھیوری چلی آ رہی تھی کہ ذہانت صرف یادداشت یا آئی کیو کا نام ہے۔آئی کیو جانچنے کیلئے فرد کی عمر پوچھی جاتی ہے۔ اگر عمر بائیس برس ہے تو اس کے کچھ ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ پھر اس سے جو رزلٹ بنتا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کے ذہن کی عمر اس کی جسمانی عمر سے زیادہ یا کم ہے۔


Post a Comment

0 Comments