خلیفہ ہارون الرشید اور بہلول دانا کا مشہور واقعہ

خلیفہ ہارون الرشید اور بہلول دانا کا مشہور واقعہ
خلیفہ ہارون الرشید اور بہلول دانا کا مشہور واقعہ
خلیفہ ہارون الرشید اور بہلول دانا کا مشہور واقعہ
خلیفہ ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچویں خلیفہ تھے،  عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی۔ ایک مشہور واقعہ ہے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں بغداد میں ایک درویش رہتے تھے، ان درویش کا نام بہلول دانا تھا، بہلول دانا بیک وقت ایک فلاسفر اور ایک تارک الدُنیا درویش تھے ان کا کوئی گھر، کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ عموماً شہر میں ننگے پاؤں پھرتے تھے اور جس جگہ تھک جاتے وہیں ڈیرہ ڈال لیتے بعض لوگوں نے انہیں مجذوب لکھا ہے کہ یہ اللہ کی تجلیات اور عشق میں مستغرق اور گم رہتے تھے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتے تھے، بہت کم لوگوں کی طرف التفات کرتے تھے اور جب کبھی عوام الناس کی طرف منہ کرتے تو حکمت و دانائی کی بہت ہی عجیب و غریب باتیں کرتے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کے بہت بڑے ولی کامل تھے، ان کا ا صل نام وہب بن عمرو تھا، ان کا تعلق عرب قبیلے بنو امان سے تھا۔ان کے والد چھٹے امام جعفر الصادق کے شاگرد تھے، لیکن کچھ وقت ساتویں امام موسیٰ کاظم کی صحبت میں بھی گزارا۔ بہلول کا شمار بھی امام موسیٰ کاظم کے پیرو کاروں میں ہوتا تھا۔ 
ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھے ساحل کی گیلی ریت کو اپنے سامنے جمع کر کے اس کی ڈھیریاں بنا رہے تھے ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک سے ان کو یہ کام کرتے دیکھ رہی تھی وہ ریت کی ڈھیری بناتے اور پھر اپنے ہاتھ سے ہی اس کو مسمار کر دیتے ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی خادمہ کے ہمراہ دریا کے کنارے آ گئی اور بہلول سے پوچھا کیا کر رہے ہو بہلول؟
بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا “جنّت کے محل بنا رہا ہوں۔۔۔ملکہ نے سوال کیا اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو کیا تم کو اس کو فروخت کرو گے؟بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں، مَیں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں، تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے۔ ملکہ کے سوال کرتے ہی بہلول نے بے ساختہ کہا تین درہم ۔۔۔
ملکہ زبیدہ نے اسی وقت اپنی خادمہ کو حکم دیا کہ بہلول کو تین درہم ادا کیئے جائیں،  اور فوراً ادا کردیئے گئے۔یہ تمام واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا، خلیفہ نے اس واقعہ کو مذاق میں ٹال دیا۔رات کو جب ہارون الرشید سوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے، آبشاریں، مرغزاریں اور پَھل پُھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشید نے سوچا کہ مَیں دیکھوں تو سہی کیونکہ یہ میری بیوی کا گھر ہے وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندر جانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دُعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہو گئی، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے۔

چنانچہ وہ شام کو بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم اسلام، ہارون الرشید نے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟ بہلول نے کہا، جنّت کے محل بنا رہا ہوں۔ خلیفہ ہارون الرشیدنے پوچھا: محل بیچو گے تو بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں، مَیں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔
تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے؟ بہلول نے بے ساختہ کہا تیری پوری سلطنت،  ہارون الرشیدنے کہا: اتنی قیمت تو مَیں نہیں دے سکتا، کل تو آپ نے تین درہم کے بدلے دے رہے تھے اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں؟ بہلول دانا نے کہا، خلیفہ ہارون رشید! کل بن دیکھے معاملہ تھا اور آج تم محل دیکھ کر آئے ہو، خلیفہ یہ سن کر گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے مایوس سرنگوں ہو کر بیٹھ گئے اور کہا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں اور مجھے ایک محل دے دیں، جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا: کہ مَیں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا، اس دُنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے، جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو اس محل کو بھی تمہارے لیئے تین درہم میں فروخت کرتا ہوں۔
بہلول سے ایسے درجنوں واقعات اور دانائی کی باتیں منسوب ہیں۔ کچھ لوگ اسے کتابی باتیں کہتے ہیں اور بعض اسے روحانیت کی معراج مانتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ جو بہلول دانا کہہ گئے وہ پتھر پر لکیر ہے۔

Post a Comment

0 Comments